یادوں کے دریچوں سے میرے دادا ابو کی دوکان … تحریر : اختر ملنگ

یادوں کے دریچوں سے میرے دادا ابو کی دوکان
تحریر : اختر ملنگ

شاہی بازار کے کھنڈرات میں آج بھی ایک پرانی دکان کی یاد زندہ ہے یہ دکان میرے دادا ابو حسن چاہی کی تھی کبھی یہ گوادر کے گنجان علاقے کی سب سے مشہور دکان ہوا کرتی تھی اور بازار کی جان ہوا کرتی تھی آج اُس وقت کو گزرے تیس سال ہو چکے ہیں، لیکن وہ دنیا آج بھی میری یادوں میں زندہ ہے۔

جب ماہی گیر سمندر سے واپس آتے تو سیدھا دادا ابو کی دکان کا رخ کرتے وہاں بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے قصے کہانیاں سناتے اور ہنسی مذاق کرتے ان کے قہقہوں سے پورا بازار گونج اٹھتا

مجھے اپنا بچپن یاد ہے جب میں دادا ابو کی دکان پر جایا کرتا تھا وہاں ایک الگ ہی دنیا ہوتی تھی بڑی دکانیں، سامان سے بھری ہوئی گاہکوں کا شور اور سمندر کی نمکین ہوا بازار کو ایسا رنگ بخشتی تھی جو آج کے گوادر میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔

دادا ابو کی دکان کے سامنے والی گلی سیدھی سمندر کی طرف جاتی تھی ہم بچے دوڑتے بھاگتے اسی گلی سے ساحل پر پہنچ جاتے اُس وقت کا سمندر کتنا حسین تھا سرخ رنگ کی موٹی ریت، لہروں کا شور آج کا سمندر ویسا نہیں رہا۔ کسی نے سچ کہا ہے گوادر میں ساحل تو ہے مگر کنارہ نہیں
واقعی اب وہ منظر صرف یادوں میں تصویروں کی طرح محفوظ ہیں۔

دکان کے پیچھے اسماعیلی برادری آباد تھی جو آج بھی ہے مگر اکثریت گوادر سے جا چکے ہیں ان کا خوبصورت جماعت خانہ آج بھی قائم ہے۔ ان کی دکانیں اب ٹوٹ پھوٹ کا منظر پیش کرتی ہیں جو بازار کبھی زندگی اور رونقوں سے بھرا رہتا تھا وہ اب سنسان اور خاموش ہو چکا ہے۔

یادوں کا سلسلہ جب چلتا ہے تو داد ابو کی دکان کے ساتھ رفیق کھوجہ، سیٹھ شوکت، رمضان استری والا اور مونچی قاسم کی دکانیں بھی یاد آتی ہیں۔ ابراہیم پان والے کے سامنے علی مروک کا ہوٹل، میاہ کی کھجور، مامی کی پوریوں کی خوشبو اور شعبان کی لسی کی ذائقہ یہ سب آج بھی یادوں کے دریچوں میں محفوظ ہیں۔

دادا ابو کی دکان کے قریب ہی مشہور حلوائی خدابخش کی دکان تھی جو اب بھی قائم ہے جہاں حلوہ کی بینی بینی خوشبو شاھی بازار کی رونقوں کی یاد دلاتا ہے۔ سامنے عاشق کھوجہ کی دکان تھی اور کریموک کی مزیدار چائے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اُس وقت کریموک کا ہوٹل گوادر کی سب سے بڑی پر رونق ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ بلوچی گانے بجتے، خوش مزاج لوگ بیٹھتے اور باتوں باتوں میں وقت گزر جاتا۔ خود کریموک بڑا باتونی تھا اکثر مسقط عمان کے قصے سناتا اور لوگ شوق سے سنتے وہ کہا کرتا تھا
ایک دن سلطان قابوس لمبی جہاز بھیجے گا، ہم سب اس پر بیٹھ کر عمان جائیں گے۔
یہ سن کر سب ہنس پڑتے خاص طور پر بزرگ ماہی گیر اس کی بات کا مذاق اُڑاتے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس وقت لوگ زیادہ تر چائے پینے نہیں بلکہ دودھ پینے آتے تھے۔

آج بھی جب میں شاہی بازار سے گزرتا ہوں تو دادا ابو کی دکان کے ساتھ ساتھ یہ سب پرانے لوگ اور ان کی یادیں سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ ملا سموسے والے کی دکان جہاں بچے اور بوڑھے سب آتے اُس وقت زیادہ تر لوگ موتل اور چابو خریدا کرتے تھے آج کے گوادر میں وہ چیزیں ڈھونڈنے کو بھی نہیں ملتیں۔

یقین مانیے، جیسے ہی یادوں کی گلی میں قدم رکھتا ہوں تو سب سے پہلے دادا ابو کی دکان میری آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔
وہ بھی کیا دن تھے، کیا رونقیں تھیں اور کیا یادیں تھیں
واہ، دادا جی کی دکان۔۔۔

میرے دادا ابو کو بکریاں پالنے کا بے حد شوق تھا اُس زمانے میں ہمارے گھر میں بھی بکریاں تھیں۔ روزانہ شام کو جب میں دکان کی طرف نکلتا تو دادا ابو مجھے بکریوں کا چارہ خریدنے کے لئے پانچ روپے دیا کرتے میں گلگ جا کر رمضان سے چارہ لیتا اور پھر گھر پہنچا دیتا کام مکمل ہوتے ہی جلدی سے دوستوں کے ساتھ حاجی بنگالی کی دکان کی طرف دوڑ پڑتا اگر بچپن کی یادوں کی بات کی جائے تو حاجی بنگالی کا ذکر کئے بغیر یہ قصہ ادھورا رہ جاتا ہے پرانے گوادر میں آج بھی مجھے بخوبی یاد ہے کہ کھیلوں کے سامان کا واحد مرکز حاجی بنگالی کی دکان ہی ہوا کرتی تھی وہاں کیا کچھ نہیں ملتا تھا۔

شاہی بازار میں زینب مشوکی کی ایک دکان بھی تھی مگر وہاں کھلونوں کا سامان زیادہ تعداد میں دستیاب نہیں ہوتا تھا۔

دادا ابو کی دکان کے سامنے والی گلی میں، میں کچھ دیر کھڑا رہا
یہاں نہ لہروں کا شور ہے اور نہ سمندر کی وہ خوبصورتی آج کے سمندر کو دیکھنے کے لیے دوربین کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں