شاہی بازار کا آخری داستان گو … کے بی فراق

شاہی بازار کا آخری داستان گو

کے بی فراق

گوادر ( گوادر ڈیجیٹل )گوادر کو جاننے والے جانتے ہیں کہ شاہی بازار کی اہمیت گوادر کی تاریخ اور سماجیات میں کس طور سے تعبیر کی جاتی ہے۔اگر کوئی اس بابت جاننے اور محسوس کرنے کی قدرت رکھتا ہے تو اس بازار میں ضرور موجود اس کردار اور اس جگہ سے آشنا ہوگا جب گزشتہ سے پیوستہ تشخص کے اشاریے تلاشنے نکلے تب آپ کو داستان گوئی کی برتر روایت کے امین اس جگہ سے وابستہ اس کردار داؤد سَگو سے ضرور مکالمہ ہوا ہوگا یا اس کی سحرانگیز آواز میں داستان سُننے کی سعادت نصیب ہوئی ہوگی۔ بجا طور پر وہ شخص بتا پائے گا کہ جی ہاں، ہم بھی وہاں موجود تھے اور بزرگوار کے ساتھ اور بھی کماش اور ساحل نشین گوادر بلوچستان کا حافظہ لیے بیٹھے باہم مجلس آرائی کو صورت پزیر کر رہے ہوتے ۔البتہ اس مجلس کے ایک میرِ مجلس داؤد سَگو ہی تھے جو اپنے آپ میں داستانوں کے جِلو میں زندگی کو رواں دھارے کی صورت منور کرتے رہے اور پھر سامنے یا پہلو میں موجود خدا بخش سُنڈو,
نبی بخش عرف نبو اور ناھُدا غلامُک سے کہہ رہے ہوتے کہ دیکھنا ملکہ بہار نے کیا کِیا؟
اور افراسیاب کی تو بات ہی الگ ہے۔

کیونکہ داستان امیر حمزہ اور۔طلسم ہوشربا شاہی بازار کی گلیاروں اور جماعت سلوم و حسین چاندنی کی دکانوں کے درمیان موجود فرش پر کماش کے ساتھ جیسے براجمان براجمان ہوتے اور سامنے مُلا یوسف ( میر غوث بخش بزنجو کے رفیقِ کارواں, نیپ اور پی این پی کے مقامی کارکن ,آخر میں ڈاکٹر حکیم لہڑی کی قربت میں رہے ) کی دکان کے باہیں جانب واقع حاجی بنگالی ( حالانکہ وہ برمی تھے لیکن ہم بچے ان کی دکان میں اکثر پتنگ، لٹو، بنٹے اور دیگر ایسی چیزیں لیا کرتے تھے اور وہ بچوں سے بنگالی آمیز بلوچی میں بڑی خوبصورتی سے بات کرتے تھے، انھیں حاجی بنگالی کہہ کر مخاطب کرتے تھے ) اور دائیں طرف چِمل کی دکان اور انہی کے درمیان شام کے وقت داؤد کے مجالس سے لطف اندوز ہونے کے لیے، تب یہ خاکسار کے بی فراق کے نام سے معنون نہیں تھا جب انہی بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر داستان سُنا کرتے تھے۔ اس بیچ اسماعیلی خاتون حبیبہ ممو اپنی کلینک سے نکل کر سامنے سے گزر رہی ہوتی تو فضا معطر ہوجاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔اب کے جب اس جگہ سے گزرتا ہوں تو خاموشی کا احساس توانا رہتا اور دھیان ان کی طرف اور اُن رشتوں کی یافت و نایافت کے بھیتر کچھ جاننے اور سمجھنے کی صورت تراشنے کی سعی کرتا ہوں۔البتہ اس بازار اس کی زندگی آموز روایت کے امین کرداروں کے معدوم ہوتے آثار کے اسباب کا تجزیہ کرنے بیٹھتا ہوں تو پہلے پہل بی ایس او کے مکتبہ فکر سے تشخص پاتا سیاسی کارکن جب مقامی حکومتوں میں جا شامل ہوئے تو انہی کو حوالہ بنا کر دعویٰ کرتے تھے اور پھر انہی دعویٰ کرنے والوں کی طرف دھیان جاتا ہے کہ وہ خود تو اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کے لیے بہت کچھ کر گئے۔لیکن جنھوں نے اس شہر کو تشخص دینے والے مقامی لوگوں کو توجہ کے لائق نہیں سمجھا اور نہ ہی اس بازار کو زندگی سے بھرپور بنانے کےلئے اپنی حکومتی پالیسیوں میں اس کو اولین ترجیحات میں شمار کیا جبکہ آج اس کی حالت دلدوز و تشویشناک ہے اور داؤد ایسے لوگ اُس وقت بھی اپنی موج اور ارتباط کی بنیاد پر بہت کچھ دینے اور کرنے میں منہمک رہے اور اب کے شاید انکی نشانیات بطورحوالہ کسی کی لکھت میں موجود ہوں یا کوئی بلوچی کا فکشن نگار ان کو اور اس بازار کو کردار بنانے کی بابت سوچتا ہو۔ اگر اس سلسلے میں وہ بڑی گہری وابستگی کے ساتھ کچھ کر گئے۔

یقین سے کہتا ہوں کہ وہ اگر اس فارم۔کی تمام۔تر لوازمات کو بروے کار لائے تو ضرور اپنی نوعیت کا برتر کام ہوگا۔۔ایک بار ایک فرنچ دوست فریڈرک بائیوسٹ گوادر آئے تو میں نے ان کو قدیم تاریخی مقامات دکھائیں ۔جب انھوں نے یہ سب کچھ دیکھا تو ان کی حیرت دیدنی تھی۔ تو گویا ہوئے کہ ان پر کام کریں اور ایسی منفرد عمارت، طرزِ تعمیر سیاحت کے سلسلے میں سیاحوں کا توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں اہم صورت رکھتی ہیں۔میں راجھستان گیا اور دس سال تک رہا, وہاں تو یہاں کی نسبت ایسی دیدہ زیب جگہیں بھی نہیں لیکن یہاں تو بہت کچھ ہے۔

پتا ہے آج راجھستان کی سیاحت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ اور اس بیچ میں نے کہا کہ ہندوستان اپنی مقامی ہیریٹیج ,پراچین اور تکثیری روایت کو فخریہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے جبکہ یہاں کی ریاستی بیانیہ ہی ان کو ختم کرنے پر کمر بستہ ہے اور اس بابت مقامی لوگوں کے نمائندہ سیاسی کلاس بھی ان کی طرف متوجہ ہونے کو اپنی زندگی کا اشاریہ تصور کرنے سے عاری ہیں۔اس لیے ان کی حالت اب کے اس طور ملاحظہ کر رہے ہیں۔
اگر اس دھرتی کو آزادی مل بھی جائے تو سیاسی آزادی کے بعد اس کو بتدریج مستحکم بنانے کے لیے سماجی آزادی، معاشی آزادی اور ثقافتی آزادی کو اپنے بیانیہ کے جِلو میں انسانیت اساس بنانے پر استوار کرنا شرط ہے جس کی بنیادیں انہی پر استوار ہونی ہے اور اس کو دیکھ کر یوں کہا جائے تو بیجا نہیں کہ ہنوز دلی دور است اور اس وقت بلوچ اپنے سروائول کی جنگ میں برسرپیکار ہے تاکہ لمحہ بھر سانس لے سکیں۔اور آج کی بنیاد پر آئندہ کو صورتِ معنی دینے کی خاطر صف بندی کریں۔البتہ اس صف بندی کے بنیادی ڈھانچے کی استواری میں داؤد سگو ایسے بنیاد گزار کردار سے اغماض برت کر سفر کرنا کیونکر ممکن ہے۔جنھوں نے داستان سُنا کر تہذیبی زندگی کو صورت پزیر کرنے کی سعی کی۔اور اس کارِ جنوں کو اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اپنی حیاتی میں وہ بازار آکر بالکل اسی جگہ کبھی تنہا بیٹھا کرتے, اس تہذیبی عمل کو رواں رکھنے کی خاطر اس امید کے ساتھ کہ۔شاید کوئی رفیقِ مجلس آئے اور داستان کی زبانی کلامی روایت کو یونہی صورت پزیر کرتے رہیں کہ تب تک کوئی اور قصہ گو اس بازار میں آ کر مجلس کو انسانی محسوسات و ارتباط کی شکل میں زندہ رکھے اور یہی احساس انھیں آخری وقت میں بھی اس طرف آنے کو مہمیز کرنے میں محرک جزبے کا کردار ادا کرتا رہا کیونکہ زندگی تو کرنی ہے اور زندگی کو اپنے آپ سے مکالمہ کی صورت وضع کرنی ہے تاکہ اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی دادؤد ثانی اپنے تناظر کو زندگی کرتا ہوا میسر آئے۔

لیکن ایسی مثالیں اُن قوموں اور معاشروں میں دیکھنے میں آتی ہیں جہاں خود سے ملنے اور خود کو دیکھنے اور جاننے کا جزبہ ایک برتر روایت کی صورت میں موجود ہو جبکہ ہمارے ہاں کی صورتحال یکسر مختلف ہے اور یہ سب بھوگنے اور جینے کے لیے کون داؤد سگو کے زمانے میں جانا پسند کرے گا اور اُس زمانے کی بازیافت میں برتر انسانی حوالے تلاشنے میں منہمک ہوگا کہ کہیں سے وہ بھی انہی کی مجلس میں داستان سُن رہا ہوتا اور داؤد کے چہرے پر سکون اور عدم اطمینانیت سے مملو احساس ہی اس عہد کی وجودی کیفیت کو زندگی آموز بنا رہا ہوتا اور آپ بھی ذرا جاکر دیکھ لیں داؤد سگو ابھی تک اپنی جگہ پر بیٹھے اپنے ہم جلیس اور دیگر لوگوں کو دیکھ رہے ہیں۔کیوں کہ وہ کہیں گئے نہیں۔اس لیے کہتے ہیں کہ لکھنے والا تب بڑا لکھ پاتا ہے اگر اس کا قاری بھی برتر ذہن کا حامل ہو اور داستان گوئی کو روشنی تب میسر آتی ہے جب اس کے سامعین بڑی گہری وابستگی کے ساتھ داستان گوئی کے عمل میں شامل ہوکر اس کی توثیق کرتے رہیں تب داستان گو بھی بڑی سرشاری میں ایک ترنگ کی سی کیفیت میں دکھائی دیتا اور مجلس پر کرداروں کی صورت رس گھولنے لگتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر یہی شاہی بازار واقعتاً شاہی بازار بن کر دکھائی دیتا لیکن اب کے یہ بازار اور اس کی گلیاں اور دیواریں نوحہ کناں ہیں اور داؤد ایسے کردار کو جینے کے لیے خود پر سے گزر رہی ہیں۔

Photo credit Khair Jan Khairul

اپنا تبصرہ لکھیں