گوادر کی صدیوں پرانی پیاس
تحریر : اختر ملنگ
جب ہوش سنبھالا تو پانی دو ورنہ کرسی چھوڑ دو کے نعرے میری سماعتوں سے ٹکرائے۔
رفتہ رفتہ عمر میں اضافہ ہوا تو دیکھا کہ میرے شہر گوادر میں پانی نایاب ہے۔
اُس وقت ہر وارڈ میں سرکاری ٹینکی ہوا کرتے تھے۔ ہمارے محلے میں بھی ایک سرکاری ٹینکی تھی۔ شام کے وقت خواتین مٹکے اور بالٹیاں اٹھائے اُن ٹنکییوں کے گرد قطاروں میں کھڑی ہوتیں، زندگی انہی ٹنکیوں کی محتاج ہوا کرتی تھی۔
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب اسکول میں اسمبلی کے دوران اکثر ہمارے سینئر دوست پانی کے مسئلے پر احتجاج کرتے اور کلاسوں کا بائیکاٹ کیا کرتے۔ ان احتجاجوں سے ہماری تعلیم بھی بری طرح متاثر ہوجاتی۔
گوادر میں پانی کا مسئلہ آج کا نہیں صدیوں پرانا ہے۔ کہتے ہیں چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات بالکل اسی طرح کبھی کبھار بارش ہوتی ہے ڈیم بھر جاتے ہیں ایک دو سال سکون سے گزر جاتے ہیں پھر دوبارہ پانی کی قلت شروع ہو جاتی ہے۔
بزرگوں سے اکثر سنا کہ قدیم گوادر میں نہ بجلی تھی نہ سڑکیں نہ کوئی آسائش بس دوستی بھائی چارہ اور انسانیت تھی مگر ایک چیز اُس وقت بھی نایاب تھی پانی۔
ہمارے بزرگ بتایا کرتے ہیں کہ کوہِ باتیل کے دامن میں تین کنویں ہوا کرتے تھے لوگ گدھوں پر گیلن لاد کر پہاڑ پر چڑھتے بیشتر لوگ بچے، بوڑھے، جوان پیدل چل کر وہاں پہنچتے اور پینے کا پانی انہی کنوؤں سے بھرتے آج بھی وہ کنویں موجود ہیں، مگر افسوس کہ وہ خستہ حالی اور عدم توجہی کا شکار ہیں۔
اگر ان کنوؤں کی صفائی اور دوبارہ کھدائی کی جائے تو شاید ایک بار پھر میٹھے پانی کا خزانہ برآمد ہو جائے۔ مگر نہ جانے گوادر کو کس کی نظر بد لگ گئی ہے کہ ہر دور اور ہر حکومت میں یہاں پانی کا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا لیتا ہے۔
گوادر کی بدنصیبی یہ ہے کہ اگر ایک سال بارش نہ ہو تو زمین، درخت، مویشی اور آس پاس کے علاقے سب پیاسے رہ جاتے ہیں۔
جب پانی کا بحران شدت اختیار کرتا ہے تو شہری ادارے اور حکومتی نمائندے حرکت میں آتے ہیں۔ ناکارہ اور کرپشن زدہ پلانٹس کی مرمت شروع کی جاتی ہے اور دشت سنٹسر بور یاد آجاتے ہیں بور کھودنے کے اعلانات کیئے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بیانات کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ پانی نایاب اور سی پیک کی دھوم نام بڑے درشن چھوٹے، آج کے جدید دور میں دنیا کا کوئی بھی ملک صرف بارشوں یا ڈیموں کے سہارے نہیں چلتا، بلکہ وہاں پانی کی ضرورت ڈیسلیشن پلانٹس (Desalination Plants) سے پوری کی جاتی ہے۔
مگر افسوس سی پیک کا دل گوادر آج بھی پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ یہاں کے لوگ اب بھی بارشوں کے انتظار اور ٹینکروں کے رحم و کرم پر ہیں۔
دنیا سمندر کے پانی کو میٹھا بنا کر زندگی چلا رہی ہے جبکہ ہم گوادر والے سمندر کے کنارے بیٹھے پیاسے ہیں ۔ دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے، ہر طرف خوشحالی اور سہولتوں کا دور ہے مگر افسوس ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم گوادر والے آج بھی پانی کے ایک قطرے کے لیے پریشان ہیں۔ آج پھر شام ڈھلتے ہی خواتین بالٹی اور مٹکے سر پے اٹھائے گلی گلی گھروں میں پانی کی تلاش میں سرگرداں ہیں آخر کب بدلے گی ہماری قسمت کب ہمیں بنیادی سہولتوں سے محرومی کا رونا، رونا نہیں پڑے گا اور ترقی کی دوڈ میں حقیقی معنوں میں شمولیت کا موقع ملے گا۔
- گوادر کا موٹر سائیکل میکانیکوں کے بازار کا آج آخری رش ،کل ویرانی کا منظر … تحریر سلیمان ہاشم -نومبر7, 2025
- سید بندیک انت پرچا ؟ ءُ داں کدی ؟…. خیرجان خیرول -نومبر1, 2025
- حق دو تحریک کی جدوجہد رنگ لے آئی، میونسپل کمیٹی کا کھنڈرات دفتر جدید مگر تاریخی طرزِ تعمیر میں تبدیل ہونے جا رہا ہے -اکتوبر29, 2025