لعل محمد کی پان کی دکان … عبدالحلیم حیاتان

لعل محمد کی پان کی دکان
عبدالحلیم حیاتان

شاھی بازار گْوادر میں کسی زمانہ میں لعل محمد کی پان کی دکان ہوا کرتی تھی جس کا شُمار شاھی بازار کی مشہور ترین پان کی دکانوں میں ہوتا تھا۔ یہ دکان “خدابخش حلوائی” کی معروف حلوے کی دکان کے بالکل پہلو میں واقع تھی۔ اِسی دکان کے پاس سے ایک تنگ گلی آغا خان اسکول تک جاتی تھی، جو ہمارے اسکول جانے کا معمول کا راستہ تھا۔

جب ہم آغا خان اسکول پڑھنے جاتے تو فیضی مسجد کے سامنے سے شاھی بازار کی مرکزی راہ داری میں داخل ہو کر لعل محمد کے پان کی دکان کی گلی کے ذریعے اسکول پہنچتے۔ اُس وقت شاھی بازار میں کئی پان کی دکانیں ہوا کرتی تھیں جِن میں لعل محمد کی دکان کو بھی خاص مرکزیت حاصل تھی۔ اِس دکان میں پان کے علاوہ روزمرہ کی ضروری اشیاء بھی دستیاب تھیں لیکن لعل محمد کی دکان کی پہچان اور شہرت کا سبب اِس کے پان کا منفرد ذائقہ تھا۔

لعل محمد کی دکان کے آس پاس کئی مشہور دکانیں اور ہوٹلیں تھیں۔ ایک طرف خدابخش حلوائی کی مٹھاس بھری دکان تو دوسری جانب کریمک کا چائے کا ہوٹل، جو اپنی “سماور” (چائے دانی) میں بننے والی خوش ذائقہ چائے کے لیے مشہور ہیں۔ دکان کے عین سامنے عبدل خوجہ کی دکان تھی، عبدل خوجہ کے دکان کے ساتھ رسول بخش کا کھانے کا ہوٹل واقع تھا، رسول بخش کے ہوٹل کے عقب میں حسین کا کھانے کا ہوٹل بھی قائم تھا۔

اِن تمام دکانوں اور ہوٹلوں کی وجہ سے شاھی بازار کا یہ حصہ ہمیشہ لوگوں کی بھیڑ کا مرکز رہتا۔ بوڑھے، جوان اور ہر عمر کے لوگ یہاں کا رُخ کرتے۔ بازار کی فضا میں خدابخش کے حلوے کی خوشبو، کریمک کی چائے کی بھاپ اور لعل محمد کے پان کی مہک بسی رہتی۔ لوگ کھانے کے بعد اکثر لعل محمد کے پان کا ذائقہ لیے بغیر وہاں سے نہ جاتے۔

لعل محمد کے انتقال کے بعد اُن کی دکان کو فوری طور پر بند نہیں کیا گیا بلکہ اُن کے بیٹوں حاجی در محمد، اختر لعل، عبدالغفور اور صالح نے اسے کئی برسوں تک کامیابی سے چلایا۔ مگر وقت کے ساتھ خاندان کے افراد نے دیگر ذرائع معاش اختیار کیے اور بالآخر یہ دکان بند کر دی گئی۔

اگرچہ دکان بند ہو گئی لیکن اسے کھنڈر بننے سے بچایا گیا۔ آج بھی یہ دکان ایک نشانی کے طور پر محفوظ ہے جسے چاروں طرف سے بلاک اور سیمنٹ کی دیواروں میں بطور یادگار محفوظ کیا گیا ہے۔

اب شاھی بازار میں لعل محمد کی دکان جیسی دیگر دکانیں یا تو ختم ہو چکی ہیں یا اُن کے آثار ہی باقی ہیں۔ کچھ دکانیں وقت کے تھپیڑوں کا شکار ہو کر مٹی میں مل گئی ہیں مگر خدابخش حلوائی کی حلوے کی دکان اور کریمُک کا چائے خانہ آج بھی اپنی جگہ قائم ہیں جو شاھی بازار گْوادر کے ماضی کے رونقوں کی شاندار گواہ ہیں جس میں گْوادر شہر کی ماضی کی بھرپور معاشرتی اور سماجی رعنائیاں پیوستہ ہیں۔

گْوادر کی پرانی نسل جنہوں نے لعل محمد کے پان کی دکان کی رونقیں دیکھی ہیں، جب آج بھی شاھی بازار میں خدابخش کے حلوے کی مٹھاس یا کریمک کی چائے کا چسکا لینے آتے ہیں تو یقیناً لعل محمد کے پان کی دکان اُن کی یادداشتوں میں ایک بار پھر ضرور تازہ ہوتا ہوگا ۔

اپنا تبصرہ لکھیں