گوادر اور ساحلی علاقے: چین سے کیا سیکھا جا سکتا ہے؟
تحریر سلیمان ہاشم
ہم بلوچستان کے لوگ سمندر کے کنارے رہتے ہیں۔ یہاں کے بیچز، مچھلی کے ذخائر اور بندرگاہیں اللہ کی دی ہوئی نعمت ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے ان نعمتوں سے کتنا فائدہ اٹھایا؟
میں بذات خود کچھ دن چائینا رہ چکا ہوں، اگر ہم ذرا سا چین کی مثال دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔ کبھی شینزین اور ژوہائی جیسے شہر بھی مچھیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہوتے تھے۔ وہاں لوگ بالکل اسی طرح زندگی گزارتے تھے جیسے آج ہمارے گوادر، جیوانی، پسنی یا اورماڑہ کے لوگ گزارتے ہیں۔ مگر آج وہی شہر دنیا کے امیر ترین اور جدید ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔
چین نے یہ کمال کیسے کیا؟
ترقی کا راز
چین نے اپنے ساحلی علاقوں کو ترقی دینے کے لیے تین بڑے قدم اٹھائے:
01. خصوصی اقتصادی زونز بنائے، جہاں صنعتیں لگیں اور دنیا بھر کے سرمایہ کار آئے۔
2. بندرگاہوں کو جدید بنایا، جہاں بڑے بڑے جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں، کئی کرینیں لگی ہیں اور اربوں ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔
3. شہری سہولتیں اور سیاحت کو بڑھایا تاکہ لوگ صرف کام کے لیے نہیں بلکہ گھومنے پھرنے کے لیے بھی آئیں۔
ساتھ ساتھ انہوں نے ماہی گیروں کو نئی کشتیوں، فیکٹریوں اور فش پروسیسنگ پلانٹس کی سہولتیں دیں۔ اس سے عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی اور مقامی لوگ ترقی کا حصہ بن گئے۔
گوادر اور ہماری ضرورت
آج گوادر کے پاس بھی وہی مواقع ہیں جو کبھی شینزین کے پاس تھا۔ حکومت بلوچستان کو چائیے کہ وہ یہاں کے ماہی گیروں کے لئے ٹرینگ سینٹر قائم کرے۔ اور سرمایہ کاری کے بہتر مواقع میسر کرے۔
سی پیک کے منصوبے، گوادر پورٹ، اور قدرتی وسائل ہمارے سامنے ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ:
یہاں صنعتیں لگائی جائیں،
ماہی گیروں کو جدید سہولتیں دی جائیں،
سیاحت کو فروغ دیا جائے،
اور عالمی سرمایہ کاروں کو اعتماد دیا جائے کہ وہ آ کر اپنا سرمایہ لگائیں۔ لیکن افسوس کہ کوئی سرمایہ کار گوادر میں آنے کے لئے تیار نہیں۔ گوادر کے عوام اور نوجوان چاہتے ہیں کہ انہیں بھی ٹرینڈ کیا جائے اور ہنر مند بنا کر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔
مستقبل کا خواب
اگر یہ سب کام ایمانداری اور منصوبہ بندی سے ہوں تو کچھ ہی سالوں میں گوادر اور بلوچستان کے دوسرے ساحلی شہر بھی دنیا کے نقشے پر ترقی کی مثال بن سکتے ہیں۔ مقامی نوجوانوں کو روزگار ملے گا، لوگوں کی زندگی آسان ہوگی اور بلوچستان اورپاکستان کی معیشت مضبوط ہوگی
چین کا ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ فرق صرف نیت، خلوص اور منصوبہ بندی کا ہے۔ اگر ہم نے صحیح وقت پر صحیح فیصلے کر لیے تو کل کو دنیا کے لوگ کہیں گے کہ گوادر بھی وہی کہانی ہے جو کبھی چائینا شینزین کی تھی۔
- اِزم ءِ قَدر ءُ قیمت…. اسحاق رحیم -نومبر8, 2025
- گوادر کا موٹر سائیکل میکانیکوں کے بازار کا آج آخری رش ،کل ویرانی کا منظر … تحریر سلیمان ہاشم -نومبر7, 2025
- سید بندیک انت پرچا ؟ ءُ داں کدی ؟…. خیرجان خیرول -نومبر1, 2025