جیونی میں کاروبار کی تاریخ ۔۔
تحریر ۔۔محمد تقی
جیونی بلوچستان کے تمام ساحلی علاقوں کے مقابلے میں ایک جداگانہ اہمیت کے حامل ساحل ہے۔ اپنے محل وقوع ،موسم,اور باڈر کی وجہ سے جیونی قدرتی طورپر ایک دلکش وجاذب علاقہ ہے۔جیونی پارٹیشن سے پہلے جب نہایت ہی چھوٹا سا قصبہ ہوا کرتاتھا،اس وقت کے حکمران طبقہ جیونی کی اہمیت کو جان گیا۔ہمیں اس بات کا کاادراک ہے جب جنگ عظیم دوئم میں اتحادی افواج اور نازی جرمنی کے درمیان جنگ اپنے عروج پر تھی ،انگریز نے جیونی میں اپنے جنگی بیس بنائے اوراس دوران دور دراز سے لوگ روزگار کے سلسلے میں جیونی کا رخ کر گئے،ایرانی بلوچستان کے جیونی سے متصل علاقوں کے علاوہ دور دراز بسنے والے بھی جیونی میں بہتر روزگار کےتلاش میں آئے،ایرانی بلوچستان کے علاوہ مشرقی بلوچستان کے لوگ بھی روزگار کے سلسلے میں جیونی کا رخ کرگئے۔
جیونی میں آپ کو ایرانی بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے لوگ اس عرف عام قبلی لوگ کہتے ہیں بھی ملیں گے،جیسے اب بھی جیونی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ چاشک جیسے دور دراز علاقوں میں رشتہ داریوں میں منسلک ہیں۔ایران کے ساحلی پٹی جیسے چابہار،نگور،گوتر،بریس،پشت،
پسابندر،کنرک،رمین جیسے علاقوں سے جیونی میں روزگار کے تلاش میں آئے اور یہی مقیم ہوئے۔ساحلی پٹی کے علاوہ نگور اور اسکے قرب جوار کے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں سے بھی لوگ بسلسلہ روزگار جیونی آکر آباد یوئے۔ جیونی میں روزگار کے ساتھ امن وامان بھی بہت زیادہ تھا۔
جیونی کے زیادہ تر لوگ مغربی بلوچستان سے آئے ہوئے ہیں،ان میں فرق یہ ہے کہ کچھ لوگ بہت پہلے ،اور کچھ بعد میں ہجرت کرکے آئے۔دیکھا جائے ایرانی بلوچستان کے علاوہ پنچگور،تربت،پسنی ،گوادر ،کراچی کے لوگ بھی جیونی میں روزگار کے سلسلے آئے،یہ سلسلہ اب بھی نہیں تھما ہے،ماضی قریب میں جب دشت میں سیلاب آیا،دشت سے بھی کافی لوگ بھی جیونی مستقل سکونت اختیار کرگئے۔
جیونی روزگار کے سلسلے میں ایک بہت ہی خوش قسمت جگہ رہی ہے۔
انگریز نے جب پہلی مرتبہ جنگ عظیم دوئم کے زمانے میں اپنی جنگی مفادات کے لئے یہاں تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا،عام لوگوں کو یہاں روزگار میسر ہوا،نزدیک اور دور کی آبادیاں روزگار کے سلسلے میں جیونی کارخ کرنے لگے۔لوگوں کی بڑی تعداد انگریزوں کے تعمیراتی کام میں مزدوری کرنے لگے،اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک بہت بڑا روزگار تھا۔
اسکے بعد جیونی میں اس زمانے کے لحاظ سے بادبانی کشیوں کاسلسلہ چلا،جو جیونی بندر سے دنیا کے بہت سے ممالک میں تجارتی سامان کے ترسیل ہواکرتاتھا،ان بادبانی کشتیوں کے ذریعے کافی عرصے تک لوگ روزگار کرتے رہے۔جب یہ سلسلہ تھما،جیونی میں مچھلی کے شکار کے سلسلے میں لانچیں بننی شروع ہوئیں،یہ لوگوں کے لئے روزگار کا اچھا سلسلہ تھا۔
ایک زمانے میں گائے،بھیڑ ،بکریاں عرب ملکوں میں تجارتی بنیاد پر جیونی ہور سے لیجائے جاتے تھے،۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دور دراز سے لوگ خلیجی ممالک میں روزگار کی تلاش میں جیونی ہور سے جاتے تھے،ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد اب بھی عرب ممالک میں مقیم ہیں،اور ان میں سے بعض لوگ خلیجی علاقوں میں نیشنلٹی بھی حاصل کرچکے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی تھا کہ
خلیجی ممالک سے کپڑے،سگریٹ اور دیگر اجناس بھی جیونی ہور میں اتر کر پورے علاقے میں لیجائے جاتے تھے,،یہ کاروباری سرگرمی کافی وقت تک چلا جیونی ہور پورے علاقے کے لانچوں کا مسکن رہا،گرمیوں میں جیونی کے قرب جوار حتی کے ایرانی بلوچستان کے لانچیں جیونی ہور میں باندھے جاتے تھے،اس زمانے جی ٹی کم ہوا کرتے تھے جیونی ہور ایک قدرتی جیٹی کام دیتاتھا،غریب لوگ گرمیوں میں چوکیداری کا کام بھی سرانجام دیتے تھے،اس زمانے لانچوں میں برف کی جگہ نمک استعمال کیا جاتاتھا۔جیونی ہور میں بہت سارے لوگ جنھیں وادی کہا جاتاتھا،لانچوں کے استعمال کےلئے سمندری پانی سے نمک بناتے تھے۔یہ لوگوں کے روزگار ایک اہم ذریعہ تھا۔
آجکل جیونی ہور میں ڈیزل کاکام اپنے عروج پر ہے۔اس کام میں جیونی میں پیسوں کاریل پیل ضرور ہے،لیکن اس روزگار کے نقصانات بھی بہت ہیں,اس کا سب سے بڑا نقصان نئی نسل میں تعلیم سے بے رخی ہے ،جب ایک بچہ تعلیم یافتہ جوانوں کو ڈیزل کام کرتے ہوئے دیکھتا ہے اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ تعلیم میں کچھ نہیں،پیسہ ہی سب کچھ ہے،یہ سوچ ہی ایک جنریشن کو تعلیم اور اسکی اہمیت سے دوری کا سبب بن رہا ہے۔ڈیزل کے کاروبار میں رش کی وجہ سے سمندر میں بہت سے حادثات ہورہے ہیں،نوجوانوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے،قیامت سی سما ہے،تدارک کے کچھ آثار دکھائی نہیں دیتے۔
آج کے جیونی روزگار اور پہلے کے جیونی کے روزگار میں ایک فرق عیاں ہے،ماضی میں جتنے بھی لوگ روزگار کے سلسلے میں جیونی آئے ہوئے تھے،وہ سب بلوچ اور ایک ہی کلچر کے لوگ تھے،اب ایسا نہیں۔
اس وقت جیونی کی صورتحال بہت ہی نازک ہوچکی ہے،جیونی کی یہ ظاہری ترقی ایک بم کی شکل اختیار کرہی ہے،اپنی گنجائش سے زیادہ آبادی،انتظامات کا نہ ہونا اور باہر لوگوں کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے طرح طرح کے مشکلات پیدا ہورہے ہیں۔یہ سلسلہ کب تک چلے کسی کو کچھ معلوم نہیں،جیونی کے لوکل لوگ اس ترقی سے گبھرائے ہوئے ہیں،اب اس سلسلے کوتھمنا ہوگا،وگرنہ حالات بہت پیچیدہ شکل اختیار کررہے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ کچھ کیا جاسکتاہے،وقت گزرنے کے ساتھ حالات مقامی لوگوں کے قابو سے باہر ہونگے،اس کا ازالہ پھر کسی سے بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
- اِزم ءِ قَدر ءُ قیمت…. اسحاق رحیم -نومبر8, 2025
- گوادر کا موٹر سائیکل میکانیکوں کے بازار کا آج آخری رش ،کل ویرانی کا منظر … تحریر سلیمان ہاشم -نومبر7, 2025
- سید بندیک انت پرچا ؟ ءُ داں کدی ؟…. خیرجان خیرول -نومبر1, 2025