سید معیار جان نوری
بلوچستان میں اس وقت عجیب غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے ، اس وقت بلوچستان کی سب سے اہم ضلع گوادر ہے جس میں گوادر پورٹ اور سی پیک سٹی یعنی گوادر شہر بھی آباد ہے، ایک طرف حکومت کا بیانیہ یہی ہے کہ بلوچستان بالخصوص گوادر میں بزنس، ٹورازم ، انڈسٹری اور دوسرے بین الاقوامی طرز کے مواقع پیدا کئے جائیں گے جس سے بلوچستان میں ترقی کی ایک نئی لہر جنم لے گی مگر دوسری طرف حیران کن امر یہ ہے کہ اس وقت بلوچستان کی اہم شاہراؤں کو بجائے سیاسی پارٹیاں یا دوسرے عوامی تحریک خود سرکار بند کررہی ہے۔ اس وقت مکران کوسٹل ہائی وے پر عجیب و غریب صورتحال ہے کہ دن کو بارہ بجے کے بعد سفر پر پابندی عائد ہے بالخصوص وہ مسافر جو گوادر ضلع سے تعلق نہیں رکھتے وہ سفر نہیں کر سکتے، شناختی کارڈ چیک کرکے سفر کی اجازت دی جارہی ہے
یعنی ایک شخص کاتعلق اگر گوادر ضلع سے نہیں ہے تو وہ مکران یا گوادر کے لئیے سفر نہیں کر سکتا، اس وقت بلوچستان میں ٹورازم کے حوالے سے کنڈ ملیر، اورماڑہ اور خود گوادر شہر بھی توجہ کا مرکز ہے مگر بدقسمتی سے حکومت کے اس طرز عمل سے یہاں ٹورازم سے منسلک کاروبار یا شعبہ شدید متاثر ہے کیونکہ ٹورازم کے لئیے غیر مقامی عوام کا آنا اشد ضروری ہے، اس وقت گوادر ضلع میں کئی غیر مقامی افراد کے کاروبار چل رہے ہیں مگر ان کو اپنے کاروبار کی نگرانی کے لئیے آنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ عمل خود سرکار کی طرف سے ہے جو بلوچستان میں ترقی اور بزنس ڈیولپمنٹ کے لئیے دعوے کرتی ہے۔
سرکار کے اس طرز عمل کی وجہ سے اس وقت بلوچستان میں بزنس بالخصوص ٹورازم کا شعبہ مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، گوادر شہر ، اورماڑہ شہر اور کنڈ ملیر میں تمام سیاحتی ہوٹل اور ریزروٹ، ریسٹورنٹ اور دکانیں، پیٹرول پمپ وغیرہ شدید بحران کا شکار ہیں اور کئی ہوٹل، ریزورٹ، ریسٹورنٹ وغیرہ بند ہو چکے ہیں۔ حکومت وقت کو چاہئیے کہ اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرے۔