تین ہٹی کا منظر اور ایک نشئی انجینئر کی کہانی
تین ہٹی، کراچی کی ایک مشہور جگہ ہے۔ اس کا نام کیوں “تین ہٹی” پڑا، یہ مجھے آج تک معلوم نہیں۔ ایک دن میں لالو کھیت کے قبرستان میں اپنے عزیز کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گیا۔ ایکسپریس روڈ کے نیچے، پل کے ساتھ کئی پھول فروش بیٹھے تھے۔ میں نے بھی فاتحہ سے پہلے پھول خریدے۔
فاتحہ کے بعد میں اپنے ایک دوست کا انتظار کرنے لگا۔ چند قدم کے فاصلے پر، راؤنڈ آباؤٹ کے قریب ایک سایہ دار جگہ پر کھڑا تھا۔ وہیں ایک شخص سفید چادر بچھائے، سفید کاغذ پر انگریزی میں کوئی درخواست لکھ رہا تھا۔ اس کی رائٹنگ حیرت انگیز طور پر خوبصورت تھی—جیسے کوئی ماہر انگلش ایکسپورٹ رائٹر ہو۔
اچانک ایک نشئی شخص اس کے قریب آیا۔ اس نے وہ لیٹر وہیں رکھ دیا اور دونوں نے ایک میلی چادر سر پر ڈال کر ہیروئن یا آئس پینا شروع کر دی۔ مجھے حیرت ہوئی—کہاں وہ نفیس رائٹنگ، اور کہاں یہ نشہ؟
کچھ دیر بعد ایک وضع دار، اردو بولنے والی بوڑھی خاتون رکشے میں آئی۔ اس کے ہاتھ میں ٹفن تھا۔ وہ روتی ہوئی، دکھ بھری آواز میں بولی:
“چادر اٹھا لو میرے لاڈلے، دیکھو میں ماں ہوں، کتنا لذیذ کھانا لے کر آئی ہوں۔”
نشئیوں نے فوراً چادر ہٹا دی۔ وہ واقعی بھوکے تھے۔ ٹفن کھولا، بریانی اور دیگر کھانے کھا گئے۔ ماں جی نے خاموشی سے ٹفن اٹھایا، آنسو پونچھے اور جدھر سے آئی تھیں، وہیں واپس چلی گئیں۔
میں نے ان میں سے ایک سے پوچھا:
“برا نہ ماننا، یہ نشے کی لت تمہیں کیسے لگی؟”
وہ کچھ دیر خاموش رہا، پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہنے لگا:
“میں نے کراچی میں انجینئرنگ میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ پھر سعودی عرب گیا، لاکھوں کی تنخواہ تھی۔ چھٹی پر کراچی آیا، ایک خوبصورت لڑکی سے شادی کی۔
کچھ دوستوں نے دوستی کی آڑ میں مجھے ہیروئن کی لت لگا دی۔ ہوش کھو بیٹھا۔ بڑا بھائی فوج میں اعلیٰ عہدے پر تھا، اس نے گھر سے نکال دیا۔ بیوی نے سمجھانے کی کوشش کی، مگر میں نے اسے مار کر گھر سے نکال دیا۔ وہ اپنے میکے چلی گئی۔ اب وہ ایک بیٹے کی ماں ہے، اور میں نے آج تک اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا۔
سب رشتے، دوست، بھائی پرائے ہو گئے۔”
اس نے نظریں جھکا کر کہا:
“لیکن ماں… ماں تو ماں ہوتی ہے۔ وہ روز آتی ہے، بے سود نصیحتیں کرتی ہے، ٹفن بھر کر کھانا لاتی ہے۔
اب میرے دوست یہ گندے کپڑوں والے، گندے لوگ ہیں، جو میرے لیے نشہ لاتے ہیں۔ جب پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، ماں کو مجبور کرتا ہوں۔
اب میں انجینئر نہیں، ایک نشئی ہوں۔ بھائی نے علاج کرایا، مگر چند دن بعد پھر وہی حالت۔
کاش میں سعودی عرب سے واپس نہ آتا۔”
اس نے آخری جملہ کہا:
“یہاں میری طرح لاکھوں لوگ نشہ کرتے ہیں۔ کوئی ایسا قانون نہیں جو یہ زہر پھیلانے والوں کو سخت ترین سزا دے۔”
- اِزم ءِ قَدر ءُ قیمت…. اسحاق رحیم -نومبر8, 2025
- گوادر کا موٹر سائیکل میکانیکوں کے بازار کا آج آخری رش ،کل ویرانی کا منظر … تحریر سلیمان ہاشم -نومبر7, 2025
- سید بندیک انت پرچا ؟ ءُ داں کدی ؟…. خیرجان خیرول -نومبر1, 2025