کہانی ہے میری اور تاج محل سینما کی …. خیرجان خیرول گوادر

کہانی ہے میری اور تاج محل سینما کی
خیرجان خیرول گوادر
بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ مکران کے تین شہر ایسے تھے جہاں سینما ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ تربت ، پسنی اور گوادر۔۔۔۔۔
گوادر کا پہلا سینما 1970 میں “بلوچستان ٹاکیز” کے نام سے قائم ہوا، جو میرین ڈرائیو پر موجودہ صدف ہوٹل کے بالکل سامنے واقع تھا۔ اب وہاں ایک حویلی بن چکی ہے،
مگر ہماری اصل یادیں جڑی ہیں تاج محل ٹاکیز سے۔ یہ سینما 1973 کے قریب، گوادر کے قدیم ماہی گیروں کی بستی کے ساتھ، سورگدل نامی ایک میدان میں بنایا گیا۔ ہم روز وہاں کھیلنے جایا کرتے تھے جب سینما بن رہا تھا اور 1974 تک یہ سینما مکمل ہو چکا تھا۔ یہ ایک اوپن ایئر سینما تھا، اور سچ پوچھیں تو ہمارے لیے یہ واقعی کسی تاج محل سے کم نہ تھا۔۔۔۔۔۔
اب یہ سینما بند ہو چکا ہے، لیکن ہم دوستوں کا ایک واٹس ایپ گروپ آج بھی اسی کے نام پر قائم ہے۔ “پاک کلاسیک تاج محل”
اس گروپ میں صرف پرانے پاکستانی فلمی گانے اور کلپس شیئر ہوتے ہیں۔ یہاں صرف پاکستان فلم انڈسٹری پر گفتگو ہوتی ہے۔
ہمارے محترم دوست اور گروپ ایڈمن قادر آر. بی. کی محبت اور محنت سے ہم نے ایک بار فلم اسٹار ندیم بیگ کا 81 واں جنم دن اسی تاج محل سینما ہال میں منایا۔ ویڈیو بھی بنائی گئی، جو عمان میں مقیم ہمارے دوستوں کو بہت پسند آئی۔ پھر جب ہمارے دوسرے ایڈمن، بھائی اسلم مسقط سے گوادر آئے، تو ہم نے وٹس ایپ گروپ کی گیارہویں سالگرہ بھی اسی سینما ہال میں منائی۔
تاج محل سینما کی پہلی فلم “اُچا شملا جٹ دا” تھی، جو عوام کو مفت دکھائی گئی۔ لیکن پوری فلم نہیں، بس کچھ سین اور گانے۔ پہلی باقاعدہ فلم تھی ندیم کی “نادان”۔ پہلے دن اسپیشل شو خاص مہمانوں کے لیے تھا، پھر دوسری رات یہ فلم ٹکٹ پر عام لوگوں کے لیے دکھائی گئی۔ یہ اوپن ایئر تھیٹر تھا، اس میں سب سے آگے بینچیں ھوتی تھی اور درمیان میں ٹین کے گولڈ ایبل کرسیاں اور سب سے پیچھے اوپر گیلری تھی گیلری کے نیچے اسپرینک والے صوفے ہوتے تھے ۔ لیکن کھلی پرش پر بھی جگہ زیادہ تھی تو لوگ نیچے پرش پر بھی بیھٹتے تھے اور کچھ لیٹ کر ہی پوری فلم دیکھ لیتے یا پھر سونے کا مزہ لیتے ۔
اس وقت ڈیڑھ روپیہ دو روپیہ اور تین روپے کی ٹکٹ ھوتی تھی۔
سینما تو اب بند ہو چکا ہے، اور کھنڈر بننے کے قریب ہے،
لیکن ہمارے دل میں وہ آج بھی “تاج محل ٹاکیز سینما ” ہی ہے
ہمارے “پاک کلاسیک تاج محل” گروپ میں اُس زمانے کے پروجیکٹر آپریٹر حاجی صالح محمد بھی شامل ہیں، جو “آل پاکستان جاوید شیخ فیڈریشن، گوادر برانچ” کے چیئرمین ہیں۔
ایک اور دلچسپ شخصیت ہیں ماسٹر حسین صاحب، جو ہر مشہور شخصیت کی تصویر میں کسی پاکستانی اداکار کی مشابہت تلاش کر لیتے ہیں، چاہے وہ فلم کا لوکل ایکسٹرا آرٹسٹ ہی کیوں نہ ہو! ۔۔۔۔۔ کمال یہ ہے کہ انہیں اُس زمانے کے تقریباً سارے آرٹسٹوں اور فلموں کے کردار تک یاد ہیں۔ ماسٹر حسین کے بچپن کا ایک یادگار واقع جسے ماسٹر اکثر بیان کرتے ھیں ۔
سلطان راہی کی فلم “جاسوس” کے دوران ماسٹر حسین سینما ہال میں ہی سو گئے۔ جب فلم ختم ہوئی اور گیٹ بند ہونے لگا، تو گیٹ کیپر نے انہیں جگایا۔ پھر سینما آپریٹر استاد احمد تاج انہیں گھر چھوڑنے گئے۔۔۔۔۔
یہ واقعہ وہ اکثر سناتے ہیں کہ “میں بہت چھوٹا تھا، آپریٹر کو بھی معلوم تھا کہ اب یہ ۔ بچہ اکیلا گھر کیسے جائے گا!”۔سچ میں اس رات میں بہت پریشان تھا کہ اب کیا ھوگا ۔۔۔۔
مجھے بھی کئی بار استاد تاج نے گھر چھوڑا، کیونکہ میرے ماموں خدا بخش بھی سینما آپریٹر رہ چکے تھے اور احمد تاج کے قریبی دوست تھے، تو وہ ایک طرح سے میرے بھی ماموں تھے۔
میں جب چھوٹا تھا تو پروجیکٹر روم کے چھت پر بیٹھ فلم دیکھا کرتا تھا اور کھبی کھبار سوجاتا تھا ۔احمد تاج اوپر آکر مجھے اٹھاتے اور پھر گھر تک چھوڑتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاج محل سینما میرے اسکول کے راستے میں پڑتا تھا۔ روز صبح اس کے سامنے سے گزرتا، شام کو فلم چلتی تو اس کی آوازیں ہمارے لیے لوریاں بن جاتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔
گوادر کے شاہی بازار میں جب فلموں کے پوسٹر لگتے، تو ہم گھنٹوں انہیں تکتے رہتے۔ جب کسی فلم کا پوسٹر دلکش لگتا یا کوئی لڑکا اس کی تعریف کرتا، تو میں دل ہی دل میں اللہ میاں سے دعا کرتا کہ آج ہمارے گھر جیونی سے کوئی مہمان آجائے، تاکہ مجھے اس کے ساتھ سینما جانے کی اجازت مل جائے۔
ورنہ رات بھر سینما کی آواز سن کر ہی سو جاتا تھا، کیونکہ سینما ہمارے محلے میں تھا اور اوپن ایئر ہونے کی وجہ سے آواز دور دور تک جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
رفتہ رفتہ جب میں خودمختار ہوا، تو دوستوں کے ساتھ سینما جانے لگا۔ پھر جوانی میں تو کوئی رات فلم کے بغیر گزرتی نہ تھی۔۔۔۔۔۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ فلم کس زبان کی ہے۔
زیادہ تر فلمیں اردو اور پنجابی ہوتیں، مگر یہاں انگریزی، سندھی اور نئی پشتو فلمیں بھی ہاؤس فل ہوا کرتی تھیں۔
ایک وقت آیا جب دونوں سینما گھروں میں ڈبل شو ہوا کرتے تھے۔
میرا قریبی دوست یونس حسین، جس کا گھر بلوچستان ٹاکیز کے قریب تھا، اور میرا گھر تاج محل کے قریب، ہم ایک ساتھ فلمیں دیکھتے۔۔۔۔۔‌ کبھی کبھی ایک ہی رات میں دونوں سینما گھروں کے شو دیکھتے تھے۔۔۔۔۔
دوستوں نے ہمیں نام دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ “یہ سینما اور وہ سینما!”
یعنی ایک رات میں دونوں سینماوں میں حاضری لگانے والے ۔۔۔‌‌
پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب ہم نے تاج محل ٹاکیز کو ٹھیکے پر لیا۔۔۔۔۔ مگر بدقسمتی سے وہ دور ایسا تھا کہ تاج محل اور بلوچستان ٹاکیز میں مقابلہ شروع ہو چکا تھا، اور ہمارے مقابلے کی پارٹی مکران کیا، پاکستان کے امیر ترین طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ادھر پاکستان فلم انڈسٹری زوال کا شکار تھی۔
وی ، سی ، آر کلچر کا راج مسلسل بڑتا جارہا تھا، اور ہم خواب دیکھ رہے تھے فل انڈسٹری میں جانے کا ، مگر اس سے پہلے ہمارا دیوالیہ نکل چکا تھا۔۔۔۔۔۔‌
آج بھی ایورنیو پکچرز کراچی میں ہمارے ایڈوانس پڑے ہوئے ہیں۔
اس وقت ہم پرانی فلمیں 500 سے 1000 روپے میں اٹھاتے تھے۔
ہم نے سب سے مہنگی فلم “منڈا بگڑا جائے” 7000 روپے میں بُک کی تھی۔۔۔۔۔ کیونکہ مقابلے کا دور تھا اور ریما جی اس میں تھی تو یونس حیسن نے فرسٹ کاپی اٹھائی ۔ جس دن لاہور اور کراچی میں چلی تھی اسی دن گوادر میں بھی چل رہی تھی ۔
ہمارے بعد بھی سینما چلتا رہا۔۔۔۔۔۔‌۔ مگر ہمارا رجحان وی سی آر اور پھر کیبل، ڈِش کی طرف زیادہ ہو گیا۔
تب ہم نے اپنے گھر کو ہی ایک سینما کا روپ دے دیا ، جو آج تک چل رہا ہے۔
2006 تک دونوں سینما بند ہو چکے تھے۔ بلوچستان سینما کی جگہ حویلی بن گئی۔۔۔۔
اور کچھ سال پہلے تاج محل کو کسی نے ریسٹورنٹ بنا دیا
پروجیکٹرز کو شوپیس کے طور پر رکھا گیا، مگر جب وہ ریسٹورنٹ بند ہوا تو پروجیکٹر بھی غائب ہو گئے۔
شاید کسی کباڑیے کے حصے میں آ گئے۔
جب تاج محل کو ریسٹورنٹ بنایا گیا، تو سچ کہیں، ہمیں بہت تکلیف ہوئی۔ کیونکہ وہ سینما نہیں رہا تھا۔ میں کبھی بھی اس ریسٹورنٹ میں نہیں گیا ۔ ایک رات کسی دوست کی شادی کی دعوت تھیں میں گیا ۔ لیکن میں کھانا کھائے بنا واپس آگیا ۔۔
مگر آج، نیم کھنڈر کی صورت میں پہنچ چکا هے مگر وہ ہے تو تاج محل سینما ہی۔۔۔ کوئی ریسٹورنٹ تو نہیں ۔۔۔
یہ کہانی صرف گوادر کے ایک سینما کی نہیں، بلکہ ایک نسل کی فلمی رومانویت، خوابوں، دوستیوں اور جذبات کی کہانی ہے۔
تاج محل ٹاکیز نہ صرف ایک عمارت، بلکہ ہماری یادوں، جذبات، اور شناخت کا حصہ ہے۔
کہانی لمبی ھوگئی مگر کیا کریں ھمارے بچپن اور تاج محل سینما کی بنیاد سے لے کر اب تک 50 برسوں کی کہانی ھے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں