گوادر کے لیجنڈری فٹبالر کپتان نصیر راج سے ایک ملاقات
تحریر : اختر ملنگ
ماضی کے بہترین فٹبالر نصیر راج جب وہ گراؤنڈ میں اترتے تو تماشائی تالیوں کی گونج سے اپنے اس ہیرو کا استقبال کرتے اور تالیوں کی یہ گونج کوہ باتیل سے ٹکرا کر گراؤنڈ میں موجود فٹبال کے شیدائیوں کے جنون کو محفوظ کرتا۔
کپتان نصیر راج کا تعلق اُس گوادر سے ہے جہاں سہولتیں کم مگر جذبے بے پناہ ہیں۔
جہاں میدان گھاس سے نہیں، مٹی سے بھرے ہوتے ہیں۔
یہ وہ سر زمین ہے جہاں بچے ننگے پاؤں سمندر کنارے لہروں کے شور میں کھیل کر اپنے خواب تراشتے ہیں خواب جو اکثر دنیا تک نہیں پہنچ پاتے۔
نصیر راج کا جنون صرف فٹبال تھا اور اس کی تربیت گاہ صرف مٹی اور دھول۔
کہا جاتا ہے کہ خواب دیکھنے کے لیے نیند نہیں، حوصلہ چاہیے اور کپتان نصیر راج تو مکمل حوصلے سے بنا تھا۔
آج وہی نصیر راج کبھی کسی ریڑھی پر کھڑا نظر آتا ہے۔
قسمت شاید اس کے ساتھ انصاف نہ کر سکی،
مگر اگر اُس زمانے میں انٹرنیٹ، میڈیا، یا آج جیسی سہولتیں ہوتیں،
تو شاید نصیر راج آج کسی چھوٹے سے اسٹال پر نہیں،
بلکہ دنیا کے بڑے میدانوں میں کھیلتا ہوتا
گوادر کے مشہور فٹبالر کپتان نصیر راج، جنہیں مقامی لوگ آج بھی محبت سے یاد کرتے ہیں ماضی کے ان کھلاڑیوں میں سے ہیں جنہوں نے کم سہولتوں کے باوجود اپنے کھیل سے پورے مکران میں نام پیدا کیا۔
ہم نے ان سے ملاقات کی اور فٹبال کے ماضی اور حال پر گُفتگو کی۔
سوال: آج کے فٹبال اور آپ کے دور کے فٹبال میں کیا فرق ہے؟
نصیر راج: آج فٹبال بہت جدید ہو چکا ہے، سہولتیں موجود ہیں، گراؤنڈ بہتر ہیں۔ ہمارے وقت میں یہ سب کچھ نہیں تھا مگر ایک چیز تھی محنت۔ ہم روزانہ سخت ورزش کرتے، گرمی ہو یا سردی، گراؤنڈ سے غیر حاضر نہیں رہتے تھے۔ آج کے کھلاڑیوں میں یہ چیز کم ہوگئی ہے۔ کامیابی صرف ٹیلنٹ سے نہیں، بلکہ محنت اور جسمانی فٹنس سے آتی ہے۔ اسی محنت نے ہمارے دور کے کھلاڑیوں کو پہچان دی۔
سوال: اگر اُس وقت سوشل میڈیا یا فیڈریشن ، اسپورٹس بورڈ ہوتیں تو کیا ہوتا؟
نصیر راج: اگر ہمارے زمانے میں سوشل میڈیا ہوتا یا مضبوط فیڈریشنز ہوتیں، تو شاید آج ہم صرف گوادر تک محدود نہ ہوتے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر کھیل رہے ہوتے۔ اُس زمانہ میں ہمارے پاس پلیٹ فارم نہیں تھا، ورنہ گوادر میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں تھی۔
سوال: آپ کو فٹبال سے کب محبت ہوئی؟
نصیر راج: گوادر میں دو کھلاڑی بہت مشہور تھے، کریم بخش مرزوق ، بابو غلام محمد اور خلیل میں ان سے بہت متاثر تھا۔ انہیں دیکھ کر ہی فٹبال میرا شوق بن گیا۔ میں نے اسکول کے دنوں میں کھیلنا شروع کیا، سب سے پہلے اسماعیلیہ اسکول سے پھر ہائی اسکول میں شام کو سمندر کنارے دوستوں کے ساتھ کھیلتے رہتے تھے۔ شوق بڑھتا گیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے، مجھے اور غفور مہر کو انڈر-19 یوتھ کمبین کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور ہم نے کراچی میں اپنے گوادر کی نمائندگی کی تھی۔
سوال: آپ نے کہاں کہاں کھیل کر گوادر کا نام روشن کیا؟
نصیر راج: ہم نے گوادر کی چاروں تحصیلوں کیچ ، پنجگور میں زیادہ تر ٹورنامنٹ جیتے۔ پھر گوادر کمبین ٹیم بنائی، جو اکثر فاتح رہتی تھی۔ بلوچستان کے کئی علاقوں جیسے کوئٹہ، مستونگ، خضدار تک گئے، سندھ اور کراچی میں بھی فائنل اپنے نام کیا۔ جہاں بھی کھیلنے گئے، یہی کوشش رہی کہ گوادر کا جھنڈا بلند رہے۔ مجھے بیرونِ ملک کھیلنے کے مواقع بھی ملے، مگر میں نہیں گیا۔
سوال: آپ کے خیال میں گوادر کی فٹبال کو آگے بڑھانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
نصیر راج: گوادر کے نوجوانوں میں زبردست ٹیلنٹ ہے۔ وہ بین الاقوامی کھلاڑیوں کی طرز پر کھیلتے ہیں۔ ضرورت صرف اچھے کوچز، بہتر رہنمائی اور مضبوط اداروں کی ہے۔ اگر انہیں صحیح سمت دی جائے تو یہی نوجوان مستقبل میں گوادر اور پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ہمارے وقت میں ایسے ادارے نہیں تھے مگر آج کا دور بدل چکا ہے۔ فٹبال فیڈریشن اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کو ان تک پہنچنا چاہیے۔
سوال: ادارے گوادر فٹبال کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
نصیر راج: جس طرح گوادر پورٹ اتھارٹی نے ایک بہترین ٹیم بنائی ہے، اسی طرح دیگر ادارے جیسے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو بھی فٹبال میں دلچسپی لینی چاہیے۔ اگر ادارے نوجوانوں کو مواقع فراہم کریں، تو وہ منفی سرگرمیوں سے دور رہ کر کھیل کے میدانوں میں نام بنا سکتے ہیں۔ گوادر کے پاس ٹیلنٹ ہے، بس کسی کو اسے آگے لانا ہے۔
سوال: آخر میں، آپ گوادر کے نوجوان کھلاڑیوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
کپتان نصیر راج: میرا پیغام گوادر کے تمام نوجوان کھلاڑیوں کے لیے یہ ہے کہ کبھی ہار مت مانو۔ حالات چاہے کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں اگر آپ کے اندر جذبہ، لگن اور محنت ہے، تو کامیابی ضرور ملے گی۔