گوادر کے عوام کی کب پیاس بجھے۔ گی ؟ تحریر ۔۔۔ سلیما ن ہاشم

گوادر کے عوام کی کب پیاس بجھے۔ گی ؟
تحریر سلیمان ہاشم

پانی کے منصوبے، اربوں کی سرمایہ کاری، اور ایک نہ ختم ہونے والی پیاس

گوادر، وہ ساحلی شہر جو ترقی کے خواب دیکھتا ہے، آج بھی پیاس کی شدت سے بلک رہا ہے۔ صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محرومی، گوادر کے باسیوں کے لیے ایک اذیت ناک حقیقت بن چکی ہے۔ حکومت بلوچستان نے پانی کی فراہمی کے لیے اربوں روپے مختص کیے، مگر بیشتر منصوبے ناکامی سے دوچار ہوئے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان ناکامیوں کی جڑ کرپشن ہے—ایک ایسا ناسور جو ہر امید کو چاٹ جاتا ہے۔

یاد رہے، گوادر میں کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک بڑا ڈیسیلیشن پلانٹ نصب کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کا افتتاح بلوچستان کے سابق وزیر منصوبہ بندی و ترقی، حامد خان اچکزئی نے کیا، جو پختونخوا ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف ادوار میں صوبائی اسمبلی کے رکن و وزیر رہ چکے ہیں۔

افتتاح کے موقع پر گوادر کے صحافیوں کو مدعو کیا گیا۔ مشینیں چلائی گئیں، سمندر کا پانی چند منٹوں میں میٹھا بنا کر گرم حالت میں سفید گلاسوں میں انڈیلا گیا، اور شرکاء کو پلایا گیا۔ وزیر موصوف نے ایک بڑے ٹینک کا بھی معائنہ کیا جو پانی سے بھرا ہوا تھا۔ مگر بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ ٹینک انکاڑہ کور ڈیم سے ٹینکروں کے ذریعے بھرا گیا تھا—یہ سب ایک دکھاوا تھا، ایک ڈرامہ جو میڈیا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے رچایا گیا تھا۔

میں نے اپنی آنکھوں سے عمان میں ایسے کئی پلانٹ دیکھے ہیں جو سمندر کے پانی کو کامیابی سے میٹھا بنا رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان پر اخراجات آتے ہیں، مگر اگر نیت صاف ہو، تو سولر توانائی کے ذریعے ان ناکام منصوبوں کو فعال بنایا جا سکتا ہے۔

آج گوادر کے شہری سوال کرتے ہیں:
– کیا ہم انسان نہیں؟
– کیا ہمارا حق نہیں کہ ہمیں صاف پانی جیسی نعمت میسر ہو؟
– کب ہوگا احتساب؟
– کون بچائے گا مزید فنڈز کو کرپشن کی نذر ہونے سے؟

عوام کا مطالبہ ہے:
– اعلیٰ حکام فوری طور پر از خود نوٹس لیں۔
– صاف و شفاف تحقیقات کی جائیں۔
– کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔
– ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

گوادر کی پیاس صرف پانی کی نہیں، انصاف کی بھی ہے۔ اور جب تک یہ پیاس بجھائی نہیں جاتی، ہر منصوبہ، ہر وعدہ، صرف ایک سراب رہے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں