بلوچستان کا ساحل۔۔۔ نیلامی کے کٹہرے میں
تحریر: آدم قادربخش
بلوچستان کا سمندر ہمیشہ سے سخاوت کی علامت رہا ہے۔ اس کے نیلگوں پانیوں نے ہزاروں سال سے مچھیرے خاندانوں کو رزق دیا، ان کے گھروں میں چراغ جلائے اور ان کے بچوں کے خوابوں کو روشنی بخشی۔ لیکن آج یہی سمندر بے آواز چیخ رہا ہے۔ اس کے سینے پر غیر قانونی ٹرالر اپنے فولادی جال پھینک کر اس کی زندگی کو چیر رہے ہیں۔
ماہی گیر جن کے ہاتھ چھالوں سے بھرے ہیں، جن کے چہرے دھوپ اور ہوا کے نشانات سے اٹے ہوئے ہیں، آج اپنے ہی ساحل پر یتیم اور بے یار و مددگار کھڑے ہیں۔ ان کی کشتیوں کے مقابلے میں جدید ٹرالر ایسے ہیں جیسے معصوم پرندے کے خلاف آسمان سے جھپٹتا ہوا شکاری باز۔
تفصیلات خوفناک ہیں:
• گڈانی سے ملان بندر تک گجہ لانچوں کے لیے فی لانچ 90 ہزار سے 1 لاکھ 50 ہزار روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔
• کراچی سے آنے والی وائر نیٹ کشتیاں 75 ہزار روپے ماہانہ دے کر مچھلی کے ذخائر کو نگل رہی ہیں۔
• ملان بندر سے زرین بندرگاہ تک 1 کروڑ 50 لاکھ روپے کا سودا ہوا ہے، ہر لانچ سے 2 لاکھ 20 ہزار روپے وصول کر کے۔
• شمال بندر سے گوادر تک 2 کروڑ 70 لاکھ روپے کے ٹھیکے میں فی لانچ 2 لاکھ 20 ہزار روپے طے کیے گئے ہیں۔
• پشکان سے جیونی تک فی لانچ 2 لاکھ 50 ہزار روپے وصول کر کے سمندر کے سینے کو چھلنی کیا جا رہا ہے۔
یہ سب محض نمبرز نہیں ہیں۔ یہ دراصل ان بچوں کے آنسو ہیں جو اسکول جانے کے بجائے ساحل پر باپ کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ ان ماہی گیر بیٹیوں کے خواب ہیں جو جہیز کے لیے اپنے باپ کی کمائی پر نظر لگائے بیٹھی ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ سمندر کو حصوں میں بانٹ کر نیلام کیا جا رہا ہے۔ کہیں ٹھیکے کے نام پر، کہیں ماہانہ بھتوں کے پردے میں۔ یوں لگتا ہے جیسے بلوچستان کے ساحل کو خود اس کے وارثوں سے چھین لیا گیا ہو۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر ان غیر قانونی ٹھیکوں اور معاہدوں کو ختم نہ کیا، اگر مافیا کے ہاتھوں میں یہ سمندر یوں ہی فروخت ہوتا رہا تو آنے والی نسلوں کو خالی جال اور بنجر ساحل کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
ہم وزیراعلیٰ بلوچستان سے اپیل نہیں بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ:
• ان غیر قانونی نیلامیوں کی شفاف تحقیقات ہوں۔
• ٹرالر مافیا کے سہولت کاروں کو بے نقاب کر کے سزا دی جائے۔
• اور سمندر کو اس کے اصل وارث یعنی مقامی ماہی گیروں کو واپس لوٹایا جائے۔
ورنہ یہ خاموش سمندر کسی دن طوفان بن جائے گا۔ اور جب طوفان اٹھتا ہے تو نہ ساحل بچتا ہے، نہ کشتیاں، نہ محل۔